اگر خوشی میں تجھے گنگناتے لگتے ہیں
تو لوگ شہر سے آنسو بہانے لگتے ہیں
نکل کے آنکھ سے لفظوں میں آنے لگتے ہیں ہیں
میاں یہ اشک ہیں یونہی ٹھکانے لگتے ہیں
گزر چکے ہیں کسی عکس کی معیت میں
ہم ایسے لوگ جو آئینہ خانے لگتے ہیں
تو کرنے لگتے ہیں غسل تلاش مصرع نو
ہم اپنے آپ کو جب بھی پرانے لگتے ہیں
بغور دیکھیں تو یک جست فاصلے پہ ہے تو
لگانا چاہیں تو صدیاں زمانے لگتے ہیں
شجر ہوں اور پرندوں سے ہے بہار مری
یہ مجھ پہ آئیں تو پھل پھول آنے لگتے ہیں
کریں تو کیا ہمیں انبوہ خواب روکتا ہے
کبھی جو سوئے ہوؤں کو جگانے لگتے ہیں
ہم آئنے میں ترا عکس دیکھنے کے لیے
کئی چراغ ندی میں بہانے لگتے ہیں
غزل
اگر خوشی میں تجھے گنگناتے لگتے ہیں
اشفاق ناصر