EN हिंदी
یاد رکھے گا مرا کون فسانہ مرے دوست | شیح شیری
yaad rakkhega mera kaun fasana mere dost

غزل

یاد رکھے گا مرا کون فسانہ مرے دوست

اشفاق ناصر

;

یاد رکھے گا مرا کون فسانہ مرے دوست
میں نہ مجنوں ہوں نہ مجنوں کا زمانہ مرے دوست

ہجر انساں کے خد و خال بدل دیتا ہے
کبھی فرصت میں مجھے دیکھنے آنا مرے دوست

شام ڈھلنے سے فقط شام نہیں ڈھلتی ہے
عمر ڈھل جاتی ہے جلدی پلٹ آنا مرے دوست

روز کچھ لوگ مرے شہر میں مر جاتے ہیں
عین ممکن ہے ٹھہر کر چلے جانا مرے دوست

تم اگر اب بھی کھنڈر دیکھ کے خوش ہوتے ہو
تو کسی دن مری جانب نکل آنا مرے دوست

جیسے مٹی کو ہوا ساتھ لیے پھرتی ہے
میں کہاں اور کہاں میرا ٹھکانہ مرے دوست