عکس کو پھول بنانے میں گزر جاتی ہے
زندگی آئنہ خانے میں گزر جاتی ہے
شام ہوتی ہے تو لگتا ہے کوئی روٹھ گیا
اور شب اس کو منانے میں گزر جاتی ہے
ہر محبت کے لیے دل میں الگ خانہ ہے
ہر محبت اسی خانے میں گزر جاتی ہے
زندگی بوجھ بتاتا تھا بتانے والا
یہ تو بس ایک بہانے میں گزر جاتی ہے
تو بتا آنکھ نیا خواب کہاں سے دیکھے
روز شب تجھ کو بھلانے میں گزر جاتی ہے
وہ چلا جاتا ہے اور ساعت رخصت اشفاقؔ
جسم کا بوجھ اٹھانے میں گزر جاتی ہے
غزل
عکس کو پھول بنانے میں گزر جاتی ہے
اشفاق ناصر