EN हिंदी
ارشد جمال صارمؔ شیاری | شیح شیری

ارشد جمال صارمؔ شیر

15 شیر

ایسی ہی بے چہرگی چھائی ہوئی ہے شہر میں
آپ اپنا عکس ہوں میں آپ آئینہ ہوں میں

ارشد جمال صارمؔ




بس اتنا ربط کافی ہے مجھے اے بھولنے والے
تری سوئی ہوئی آنکھوں میں اکثر جاگتا ہوں میں

ارشد جمال صارمؔ




دیکھ اے میری زبوں حالی پہ ہنسنے والے
وقت کی دھوپ نے کس درجہ نکھارا مجھ کو

ارشد جمال صارمؔ




ہر ایک شاخ پہ ویرانیاں مسلط ہیں
بدن درخت بھی گویا ہے آشیانۂ شب

ارشد جمال صارمؔ




اسی باعث میں اپنا نصف رکھتا ہوں اندھیرے میں
مرے اطراف بھی سورج کوئی گردش میں رہتا ہے

ارشد جمال صارمؔ




جانے کس رت میں کھلیں گے یہاں تعبیر کے پھول
سوچتا رہتا ہوں اب خواب اگاتا ہوا میں

ارشد جمال صارمؔ




ختم ہوتا ہی نہیں سلسلہ تنہائی کا
جانے کس درجہ مسافت میں ہے ڈھالی گئی شب

ارشد جمال صارمؔ




کس کی تنویر سے جل اٹھے بصیرت کے چراغ
کس کی تصویر یہ آنکھوں سے لگائی گئی ہے

ارشد جمال صارمؔ




کیا کہوں کتنا فزوں ہے تیرے دیوانے کا دکھ
اک طرف جانے کا غم ہے اک طرف آنے کا دکھ

ارشد جمال صارمؔ