کہاں کہاں سے سناؤں تمہیں فسانۂ شب
طویل گزرا ہے مجھ پر بہت زمانۂ شب
مہک رہا ہے ہمیں سے حریم گلشن روز
ہمیں سے نور فزا ہے نگار خانۂ شب
ہوا ہے حکم یہ منجانب شہ ظلمات
حدود شہر سیہ چھوڑ دے دوانۂ شب
خموش ہوتے ہیں دن کے تمام تر سکے
کھنکتا رہتا ہے کشکول دل میں آنۂ شب
ہر ایک شاخ پہ ویرانیاں مسلط ہیں
بدن درخت بھی گویا ہے آشیانۂ شب
تمام یادیں تو آ بیٹھتی ہیں شام ڈھلے
اداس رہتا ہے پھر کس لئے سرہانۂ شب
امید خاک رکھی جائے اب اجالوں کی
چراغ اوندھے پڑے ہیں بہ آستانۂ شب
حلال رزق میسر ہو کیا انہیں صارمؔ
کہ جن پرندوں کو چگنا ہے صرف دانۂ شب
غزل
کہاں کہاں سے سناؤں تمہیں فسانۂ شب
ارشد جمال صارمؔ