کیا کہوں کتنا فزوں ہے تیرے دیوانے کا دکھ
اک طرف جانے کا غم ہے اک طرف آنے کا دکھ
ہے عجب بے رنگیٔ احوال مجھ میں موجزن
نے ہی جینے کی طلب ہے نے ہی مر جانے کا دکھ
توڑ ڈالا تھا سبھی کو درد کے آزار نے
سہہ نہ پایا تھا کوئی کردار افسانے کا دکھ
خون رو اٹھتی ہیں سب آنکھیں نگار صبح کی
بانٹتی ہے شب کبھی جو آئینہ خانے کا دکھ
شمع بھی تو ہو رہی ہوتی ہے ہر پل رائیگاں
کیوں فقط ہم کو نظر آتا ہے پروانے کا دکھ
سر پٹکتی تھیں مسلسل موج ہائے تشنگی
ہونٹ کے ساحل پہ خیمہ زن تھا پیمانے کا دکھ
لوٹتا ہے جب بھی سینے پر شناسائی کا سانپ
لہر اٹھتا ہے بدن میں ایک انجانے کا دکھ
وار دیتا ہوں میں صارمؔ اپنی سب آبادیاں
مجھ سے دیکھا ہی نہیں جاتا ہے ویرانے کا دکھ
غزل
کیا کہوں کتنا فزوں ہے تیرے دیوانے کا دکھ
ارشد جمال صارمؔ