نت نئے نقش سے باطن کو سجاتا ہوا میں
اپنے ظاہر کے خد و خال مٹاتا ہوا میں
لحظہ لحظہ یہ فدا ہوتی ہوئی مجھ پہ حیات
اور ہر آن نظر اس سے چراتا ہوا میں
جانے کس رت میں کھلیں گے یہاں تعبیر کے پھول
سوچتا رہتا ہوں اب خواب اگاتا ہوا میں
ہر گھڑی بڑھتی ہوئی تشنہ لبی عشق تری!
دل کے رستے ہوئے زخموں سے بجھاتا ہوا میں
روز ہوتا ہوا مجھ میں کسی خواہش کا جنم
روز ہی قبر نئی خود میں بناتا ہوا میں
رہرو شوق! کرو یوں! مرے پیچھے آؤ
آؤ چلتا ہوں تمہیں راہ دکھاتا ہوا میں
اب کہاں ویسے ہیں ادراک کے لمحات نصیب
یاد میں کھو کے تری خود کو وہ پاتا ہوا میں
آج بھی یاد ہیں صارمؔ کو مناظر سارے
ہر ادا پر وہ تری جان سے جاتا ہوا میں
غزل
نت نئے نقش سے باطن کو سجاتا ہوا میں
ارشد جمال صارمؔ