پیاس ہر ذرۂ صحرا کی بجھائی گئی ہے
تب کہیں جا کے مری آبلہ پائی گئی ہے
قید میں رکھی گئی ہے کہیں تتلی کوئی
کوئی خوشبو کہیں بازار میں لائی گئی ہے
کیا بھلا اپنی سماعت میں گھلے کوئی مٹھاس
وقت کے ہونٹوں سے کب تلخ نوائی گئی ہے
کس کی تنویر سے جل اٹھے بصیرت کے چراغ
کس کی تصویر یہ آنکھوں سے لگائی گئی ہے
ہو گئی جا کے شفق رنگیٔ آفاق میں ضم
کف دوشیزۂ دل سے جو حنائی گئی ہے
اٹھ اے برباد تمنا کی نئی خواب کنیز
حرم چشم میں پھر رقص کو لائی گئی ہے
وقت ایسا بھی تو آیا ہے جنوں پر صارمؔ
نوک مژگان سے تلوار اٹھائی گئی ہے
غزل
پیاس ہر ذرۂ صحرا کی بجھائی گئی ہے
ارشد جمال صارمؔ