دیوانگی کی ایسی ملے گی کہاں مثال
کانٹے خریدتا ہوں گلابوں کے شہر میں
انور مینائی
ہر دم دعائے آب و ہوا مانگتے رہے
ننگے درخت سبز قبا مانگتے رہے
انور مینائی
اس عہد میں رشتوں کی بے رنگ دکانوں میں
ہیرے سے بھی مہنگا ہے وشواس کا آئینہ
انور مینائی
جب زمیں کے مقدر سنور جائیں گے
آسماں سے فرشتے اتر آئیں گے
انور مینائی
خواب بکھریں گے تو ہم کو بھی بکھرنا ہوگا
شب کی اک ایک اذیت سے گزرنا ہوگا
انور مینائی
لاکھ سورج کی عنایات رہیں میرے ساتھ
میرا سایہ نہ مرے قد کے برابر پھیلا
انور مینائی
صحیفے فکر و نظر کے جو دے گئے ترتیب
وہی تو شعر و سخن کے پیمبروں میں رہے
انور مینائی
اترا تھا میری روح کے روزن سے جو کبھی
گھٹ گھٹ کے میرے جسم میں مرنے لگا ہے وہ
انور مینائی
یاد کی خوشبو دل کے نگر میں پھیلے گی
غم کے سائے لگتے ہیں اب شیتل سے
انور مینائی