گم کر دیں اک ذرا تجھے خوابوں کے شہر میں
نکتے کچھ ایسے ڈھونڈ کتابوں کے شہر میں
دیوانگی کی ایسی ملے گی کہاں مثال
کانٹے خریدتا ہوں گلابوں کے شہر میں
آئینے بولتے ہیں تو یہ بھی بتائیں گے
کیا بے حجاب ہوں میں حجابوں کے شہر میں
ناکامیوں کی آگ میں تپتی ہیں خواہشیں
جلتی ہے میری روح عذابوں کے شہر میں
اس عہد نا شناس میں اخلاص کی طلب
گوہر کی جستجو ہے حبابوں کے شہر میں
ہر منظر حسیں پہ ہے اک چادر غبار
کیا میں بھٹک رہا ہوں سرابوں کے شہر میں
انورؔ ہمیں تو آج بھی فکر و نگاہ کے
بوسیدہ گھر ملے ہیں نصابوں کے شہر میں
غزل
گم کر دیں اک ذرا تجھے خوابوں کے شہر میں
انور مینائی