بڑے سکون سے خود اپنے ہم سروں میں رہے
جب آئنہ صفت انسان پتھروں میں رہے
بھلا وہ کیسے جرائم کے ہاتھ کاٹیں گے
جو سہمے سمٹے سے خود اپنے بستروں میں رہے
نفس نفس تھا بکھرنے کا سلسلہ جاری
برائے نام ہی محفوظ ہم گھروں میں رہے
ہماری نکتہ رسی اس قدر گراں گزری
کہ بن کے خار ہمیشہ نظر وروں میں رہے
صحیفے فکر و نظر کے جو دے گئے ترتیب
وہی تو شعر و سخن کے پیمبروں میں رہے
اٹھائے دوش پہ مصلوب حسرتوں کی لاش
ہم اپنے شہر کے خوں بار منظروں میں رہے
تراش کر نئی تہذیب کے صنم ہم لوگ
بصد وقار زمانے کے آزروں میں رہے

غزل
بڑے سکون سے خود اپنے ہم سروں میں رہے
انور مینائی