EN हिंदी
محفوظ رہے گا کیا احساس کا آئینہ | شیح شیری
mahfuz rahega kya ehsas ka aaina

غزل

محفوظ رہے گا کیا احساس کا آئینہ

انور مینائی

;

محفوظ رہے گا کیا احساس کا آئینہ
پتھر کے مقابل ہے الماس کا آئینہ

اب چہرۂ ماضی بھی پہچانا نہیں جاتا
یوں ٹوٹ کے بکھرا ہے اتہاس کا آئینہ

مفہوم تو مبنی ہے قاری کی بصیرت پر
الفاظ سے روشن ہے قرطاس کا آئینہ

اس عہد میں رشتوں کی بے رنگ دکانوں میں
ہیرے سے بھی مہنگا ہے وشواس کا آئینہ

اس شہر میں یوں پھیلی آزار کی پرچھائیں
ہر شخص کا چہرہ ہے اب یاس کا آئینہ