جب زمیں کے مقدر سنور جائیں گے
آسماں سے فرشتے اتر آئیں گے
کیسے پھیلیں گے وہ لوگ افق تا افق
اپنے اندر سمٹ کر جو رہ جائیں گے
چاندنی موج در موج لہرائے گی
عکس تاروں کے پانی سے تھرائیں گے
بارش سنگ کرتے چلے جائیں وہ
ہم لہو رو کے بھی پھول برسائیں گے
کانچ کا جسم لے کر کسی شہر میں
وہ اگر جائیں گے بکھر جائیں گے
جن میں تنویر احساس جاگی نہ ہو
ذہن ایسے کھنڈر ہی تو کہلائیں گے
ریت اڑے گی جو صحرائے اخلاص میں
اور کیا اپنی مٹھی میں ہم لائیں گے
غزل
جب زمیں کے مقدر سنور جائیں گے
انور مینائی