احساس کی رگوں میں اترنے لگا ہے وہ
اب بوند بوند مجھ میں بکھرنے لگا ہے وہ
گمنامیوں کی اندھی گپھائیں ہوں نوحہ خواں
مانند آفتاب ابھرنے لگا ہے وہ
کیسے کہوں کہ غم ہوا خوابوں کی بھیڑ میں
زخموں کا اندمال تو کرنے لگا ہے وہ
اک حرف آتشیں بھی نہیں اس کے ہونٹ پر
لگتا ہے لحظہ لحظہ ٹھٹھرنے لگا ہے وہ
امکان کی حدوں سے گزرنے کے بعد کیوں
اب ریزہ ریزہ ہو کے بکھرنے لگا ہے وہ
اترا تھا میری روح کے روزن سے جو کبھی
گھٹ گھٹ کے میرے جسم میں مرنے لگا ہے وہ
غزل
احساس کی رگوں میں اترنے لگا ہے وہ
انور مینائی