خواب بکھریں گے تو ہم کو بھی بکھرنا ہوگا
شب کی اک ایک اذیت سے گزرنا ہوگا
وہ ہمارے ہی رگ و پے میں نہاں رہتا ہے
اس کی تصدیق تو اک دن ہمیں کرنا ہوگا
اپنے خاکستر تن کو لئے کوچہ کوچہ
کیا ہواؤں کی طرح مجھ کو گزرنا ہوگا
ہمیں احباب کی بے لوث رفاقت کے سبب
وقت آئے گا تو بے موت بھی مرنا ہوگا
ہوں گے صحراؤں کے سناٹے نظر کی حد میں
کوئی وادی نہ کوئی خواب نہ جھرنا ہوگا
آئنہ آئنہ خود ساری دشائیں ہوں گی
عکس در عکس مگر ہم کو ابھرنا ہوگا
چیختے خوابوں کی تعبیر یہی کہتی ہے
ہوگی ہڑتال کہیں تو کہیں دھرنا ہوگا
غزل
خواب بکھریں گے تو ہم کو بھی بکھرنا ہوگا
انور مینائی