EN हिंदी
خواب بکھریں گے تو ہم کو بھی بکھرنا ہوگا | شیح شیری
KHwab bikhrenge to hum ko bhi bikharna hoga

غزل

خواب بکھریں گے تو ہم کو بھی بکھرنا ہوگا

انور مینائی

;

خواب بکھریں گے تو ہم کو بھی بکھرنا ہوگا
شب کی اک ایک اذیت سے گزرنا ہوگا

وہ ہمارے ہی رگ و پے میں نہاں رہتا ہے
اس کی تصدیق تو اک دن ہمیں کرنا ہوگا

اپنے خاکستر تن کو لئے کوچہ کوچہ
کیا ہواؤں کی طرح مجھ کو گزرنا ہوگا

ہمیں احباب کی بے لوث رفاقت کے سبب
وقت آئے گا تو بے موت بھی مرنا ہوگا

ہوں گے صحراؤں کے سناٹے نظر کی حد میں
کوئی وادی نہ کوئی خواب نہ جھرنا ہوگا

آئنہ آئنہ خود ساری دشائیں ہوں گی
عکس در عکس مگر ہم کو ابھرنا ہوگا

چیختے خوابوں کی تعبیر یہی کہتی ہے
ہوگی ہڑتال کہیں تو کہیں دھرنا ہوگا