ہر دم دعائے آب و ہوا مانگتے رہے
ننگے درخت سبز قبا مانگتے رہے
یاروں کا اعتقاد بھی اندھا تھا اس قدر
گونگی روایتوں سے صدا مانگتے رہے
کتنی عجیب بات تھی جب سرد رات سے
ہم دوپہر کی گرم ہوا مانگتے رہے
کرتے رہے جو دن کے اجالوں سے احتراز
وہ بھی اندھیری شب میں ضیا مانگتے رہے
کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو لمحات کرب سے
آسودہ ساعتوں کا پتہ مانگتے رہے

غزل
ہر دم دعائے آب و ہوا مانگتے رہے
انور مینائی