مخملی خواب کا آنکھوں میں نہ منظر پھیلا
زہر ہی زہر مرے جسم کے اندر پھیلا
سبز موسم میں بھی ہو جس کی شباہت پیلی
اس چمن میں کہیں شعلے کہیں پتھر پھیلا
خوفناکی اثر انداز ہوا کرتی ہے
اس کو اخبار کی مانند نہ گھر گھر پھیلا
ہو یہ ممکن تو مرے جسم کے اندر بھی اتر
ریزہ ریزہ مجھے ہر سمت برابر پھیلا
اختراعات کے باعث ہی جہاں میں اب تک
نئے احساس کا بے پایاں سمندر پھیلا
وجہ تکلیف نہ بن جائے خلا کی خواہش
اب اڑانوں کے لئے پر نہ کبوتر پھیلا
لاکھ سورج کی عنایات رہیں میرے ساتھ
میرا سایہ نہ مرے قد کے برابر پھیلا
غزل
مخملی خواب کا آنکھوں میں نہ منظر پھیلا
انور مینائی