دل سے نکلی ہوئی ہر آہ کی تاثیر میں آ
مانگ لے رب سے مجھے اور مری تقدیر میں آ
انور کیفی
غریب بھوک کی ٹھوکر سے خون خون ہوئے
کسی امیر کو اب تو لہو کی باس آئے
انور کیفی
ہجر کہتے ہیں کسے یہ مجھے معلوم نہیں
کیا کروں گا میں تجھے اے شب فرقت لے کر
انور کیفی
جو کر رہے تھے زمانے سے گمرہی کا سفر
انہیں کے نام کیا حق نے بندگی کا سفر
انور کیفی
مری قسمت کی کشتی بحر غم میں ڈوب سکتی تھی
تری تقدیر سے شاید مری تقدیر ابھری ہے
انور کیفی
رہ حیات میں شاید ہی وہ مقام آئے
کہ نغمہ ہائے جنوں پر سکوت طاری ہو
انور کیفی
یہ دور محبت کا لہو چاٹ رہا ہے
انسان کا انسان گلا کاٹ رہا ہے
انور کیفی
یہ تو ہو سکتا ہے کہ دونوں کی منزل ایک ہو
پھر بھی اس کے ہم سفر ہونے کی فرمائش نہ کر
انور کیفی