اے آسمان حرف کو پھر اعتبار دے
ورنہ حقیقتوں کو کہانی لکھیں گے لوگ
انجم بارہ بنکوی
غیر تو آنسو پوچھیں گے
دھوکا دیں گے اپنے لوگ
انجم بارہ بنکوی
گھر بار چھوڑ کر وہ فقیروں سے جا ملے
چاہت نے بادشاہوں کو محکوم کر دیا
انجم بارہ بنکوی
جس بات کا مطلب خوشبو ہے ہر گاؤں کے کچے رستے پر
اس بات کا مطلب بدلے گا جب پکی سڑک آ جائے گی
انجم بارہ بنکوی
جو دوستوں کی محبت سے جی نہیں بھرتا
تو آستین میں دو چار سانپ پال کے رکھ
انجم بارہ بنکوی
جو سارے دن کی تھکن اوڑھ کر میں سوتا ہوں
تو ساری رات مرا گھر سفر میں رہتا ہے
انجم بارہ بنکوی
کتاب عشق کے جو معتبر رسالے ہیں
انہیں میں حسن کے کچھ مستند حوالے ہیں
انجم بارہ بنکوی
میں ایسے در کا گدا ہوں جہاں پہ موتی کیا
ہزار بار مجھے سنگ آب دار ملے
انجم بارہ بنکوی
میں نے سورج کی طرح خود کو بنایا جس دن
دیکھنے آئیں گے یہ مغرب و مشرق مجھ کو
انجم بارہ بنکوی