خزاں ملی ابھی تک کہیں بہار ملے
سفر میں پیار کا موسم تو با وقار ملے
میں ایسے در کا گدا ہوں جہاں پہ موتی کیا
ہزار بار مجھے سنگ آب دار ملے
خوشی کا نور تو اک بارگی ملا ہے تمہیں
ہمیں تو غم کے اندھیرے بھی قسط وار ملے
تری چمک کا تقاضا نہیں ضرورت ہے
ترے خمیر میں تھوڑا سا انکسار ملے
یہ آرزو ہے کہ اب روشنی کے قصے ہیں
مرے چراغ کو سورج کا اعتبار ملے
میں خوش نصیب بہت ہوں کہ مجھ کو دنیا میں
قدم قدم پہ محبت کے شاہکار ملے
میں آسمانوں زمینوں کی حد ملا دوں گا
جو چار روز کا سچ مچ میں اختیار ملے
غزل
خزاں ملی ابھی تک کہیں بہار ملے
انجم بارہ بنکوی