دل کا گلاب میں نے جسے چوم کر دیا
اس نے مجھے بہار سے محروم کر دیا
اب پھول کیا کھلیں کہ جہاں پتیاں نہیں
موسم نے شاخ شاخ کو مسموم کر دیا
گھر بار چھوڑ کر وہ فقیروں سے جا ملے
چاہت نے بادشاہوں کو محکوم کر دیا
ان آنسوؤں سے دل کی تپش اور بڑھ گئی
بارش نے اور بھی مجھے مغموم کر دیا
یہ آرزو ہے اس پہ کوئی نعت لکھ سکوں
جس نے گناہ گار کو معصوم کر دیا
انجمؔ جناب میرؔ کا یہ فیض خاص ہے
ہم نے بھی اپنے درد کو منظوم کر دیا
غزل
دل کا گلاب میں نے جسے چوم کر دیا
انجم بارہ بنکوی