ہر ایک لفظ میں سینے کا نور ڈھال کے رکھ
کبھی کبھار تو کاغذ پہ دل نکال کے رکھ
جو دوستوں کی محبت سے جی نہیں بھرتا
تو آستین میں دو چار سانپ پال کے رکھ
تجھے تو کتنی بہاریں سلام بھیجیں گی
ابھی یہ پھول سا چہرہ ذرا سنبھال کے رکھ
یہاں سے دھوپ کے نیزے بلند ہوتے ہیں
تمام چھاؤں کے قصوں پہ خاک ڈال کے رکھ
مہک رہے ہیں کئی آسمان مٹی میں
قدم زمین محبت پہ دیکھ بھال کے رکھ
دل و دماغ ٹھکانے پہ آنے والے ہیں
اب اس کا ذکر کسی اور دن پہ ٹال کے رکھ
غزل
ہر ایک لفظ میں سینے کا نور ڈھال کے رکھ
انجم بارہ بنکوی