EN हिंदी
ہر ایک لفظ میں سینے کا نور ڈھال کے رکھ | شیح شیری
har ek lafz mein sine ka nur Dhaal ke rakh

غزل

ہر ایک لفظ میں سینے کا نور ڈھال کے رکھ

انجم بارہ بنکوی

;

ہر ایک لفظ میں سینے کا نور ڈھال کے رکھ
کبھی کبھار تو کاغذ پہ دل نکال کے رکھ

جو دوستوں کی محبت سے جی نہیں بھرتا
تو آستین میں دو چار سانپ پال کے رکھ

تجھے تو کتنی بہاریں سلام بھیجیں گی
ابھی یہ پھول سا چہرہ ذرا سنبھال کے رکھ

یہاں سے دھوپ کے نیزے بلند ہوتے ہیں
تمام چھاؤں کے قصوں پہ خاک ڈال کے رکھ

مہک رہے ہیں کئی آسمان مٹی میں
قدم زمین محبت پہ دیکھ بھال کے رکھ

دل و دماغ ٹھکانے پہ آنے والے ہیں
اب اس کا ذکر کسی اور دن پہ ٹال کے رکھ