EN हिंदी
لہجے کی اداسی کم ہوگی باتوں میں کھنک آ جائے گی | شیح شیری
lahje ki udasi kam hogi baaton mein khanak aa jaegi

غزل

لہجے کی اداسی کم ہوگی باتوں میں کھنک آ جائے گی

انجم بارہ بنکوی

;

لہجے کی اداسی کم ہوگی باتوں میں کھنک آ جائے گی
دو روز ہمارے ساتھ رہو چہرے پہ چمک آ جائے گی

یہ چاند ستاروں کی محفل معلوم نہیں کب روشن ہو
تم پاس رہو تم ساتھ رہو جذبوں میں کسک آ جائے گی

کچھ دیر میں بادل برسیں گے کچھ دیر میں ساون جھومیں گے
تم زلف یوں ہی لہرائے رہو موسم میں سنک آ جائے گی

جب اس کی ملاحت کے قصے لکھوں گا غزل کے شعروں میں
ہر روکھے پھیکے مصرعے میں تاثیر نمک آ جائے گی

سورج کو ذرا کچھ ڈھلنے دو کچھ وقت کا دریا بہنے دو
جو دھوپ ابھی تک سر پر ہے وہ پاؤں تلک آ جائے گی

یہ سوچ کے تیرے قدموں کی کچھ خاک اڑا دی گلشن میں
ہر پھول میں تیرے چہرے کی تھوڑی سی جھلک آ جائے گی

جس بات کا مطلب خوشبو ہے ہر گاؤں کے کچے رستے پر
اس بات کا مطلب بدلے گا جب پکی سڑک آ جائے گی

یہ پیار کا دن ہے پیار کا دن اقرار کرو انجمؔ صاحب
اس دن کی ذرا سی قدر کرو جیون میں مہک آ جائے گی