خیال جان سے بڑھ کر سفر میں رہتا ہے
وہ میری روح کے اندر سفر میں رہتا ہے
جو سارے دن کی تھکن اوڑھ کر میں سوتا ہوں
تو ساری رات مرا گھر سفر میں رہتا ہے
جنم جنم سے مری پیاس سر پٹکتی ہے
جنم جنم سے سمندر سفر میں رہتا ہے
مرا یقین کرو اس کے پاؤں میں تل ہے
اسی لئے وہ برابر سفر میں رہتا ہے
میں دل ہی دل میں جسے پوجنے لگا ہوں بہت
وہ دیوتا نہیں پتھر سفر میں رہتا ہے
غزل
خیال جان سے بڑھ کر سفر میں رہتا ہے
انجم بارہ بنکوی