آئنے سے نظر چراتے ہیں
جب سے اپنا جواب دیکھا ہے
امیر قزلباش
آج کی رات بھی گزری ہے مری کل کی طرح
ہاتھ آئے نہ ستارے ترے آنچل کی طرح
امیر قزلباش
اب سپر ڈھونڈ کوئی اپنے لیے
تیر کم رہ گئے کمانوں میں
امیر قزلباش
اپنے ہم راہ خود چلا کرنا
کون آئے گا مت رکا کرنا
امیر قزلباش
ایک خبر ہے تیرے لیے
دل پر پتھر بھاری رکھ
امیر قزلباش
ہر قدم پہ ناکامی ہر قدم پہ محرومی
غالباً کوئی دشمن دوستوں میں شامل ہے
It was as if amidst my friends there was an enemy
A failure and deprived at every step did I remain
امیر قزلباش
ہونا پڑا ہے خوگر غم بھی خوشی کی خیر
وہ مجھ پہ مہرباں ہیں مگر بے رخی کے ساتھ
امیر قزلباش
اک پرندہ ابھی اڑان میں ہے
تیر ہر شخص کی کمان میں ہے
امیر قزلباش
اتنا بیداریوں سے کام نہ لو
دوستو خواب بھی ضروری ہے
امیر قزلباش