خالی ہاتھ نکل گھر سے
زاد سفر ہشیاری رکھ
امیر قزلباش
آئنے سے نظر چراتے ہیں
جب سے اپنا جواب دیکھا ہے
امیر قزلباش
اتنا بیداریوں سے کام نہ لو
دوستو خواب بھی ضروری ہے
امیر قزلباش
اک پرندہ ابھی اڑان میں ہے
تیر ہر شخص کی کمان میں ہے
امیر قزلباش
ہونا پڑا ہے خوگر غم بھی خوشی کی خیر
وہ مجھ پہ مہرباں ہیں مگر بے رخی کے ساتھ
امیر قزلباش
ہر قدم پہ ناکامی ہر قدم پہ محرومی
غالباً کوئی دشمن دوستوں میں شامل ہے
It was as if amidst my friends there was an enemy
A failure and deprived at every step did I remain
امیر قزلباش
ایک خبر ہے تیرے لیے
دل پر پتھر بھاری رکھ
امیر قزلباش
اپنے ہم راہ خود چلا کرنا
کون آئے گا مت رکا کرنا
امیر قزلباش
اب سپر ڈھونڈ کوئی اپنے لیے
تیر کم رہ گئے کمانوں میں
امیر قزلباش