EN हिंदी
امیر قزلباش شیاری | شیح شیری

امیر قزلباش شیر

33 شیر

ہونا پڑا ہے خوگر غم بھی خوشی کی خیر
وہ مجھ پہ مہرباں ہیں مگر بے رخی کے ساتھ

امیر قزلباش




ہر قدم پہ ناکامی ہر قدم پہ محرومی
غالباً کوئی دشمن دوستوں میں شامل ہے

It was as if amidst my friends there was an enemy
A failure and deprived at every step did I remain

امیر قزلباش




ایک خبر ہے تیرے لیے
دل پر پتھر بھاری رکھ

امیر قزلباش




اپنے ہم راہ خود چلا کرنا
کون آئے گا مت رکا کرنا

امیر قزلباش




اب سپر ڈھونڈ کوئی اپنے لیے
تیر کم رہ گئے کمانوں میں

امیر قزلباش




آج کی رات بھی گزری ہے مری کل کی طرح
ہاتھ آئے نہ ستارے ترے آنچل کی طرح

امیر قزلباش