بن کے تعبیر بھی آیا ہوتا
نت نئے خواب دکھانے والا
عالم تاب تشنہ
حد ہو گئی تھی ہم سے محبت میں کفر کی
جیسے خدا نخواستہ وہ لاشریک تھا
عالم تاب تشنہ
ہم اپنے عشق کی اب اور کیا شہادت دیں
ہمیں ہمارے رقیبوں نے معتبر جانا
عالم تاب تشنہ
ہر دور میں رہا یہی آئین منصفی
جو سر نہ جھک سکے وہ قلم کر دئیے گئے
عالم تاب تشنہ
اس راہ محبت میں تو ساتھ اگر ہوتا
ہر گام پہ گل کھلتے خوشبو کا سفر ہوتا
عالم تاب تشنہ
ما سوائے کار آہ و اشک کیا ہے عشق میں
ہے سواد آب و آتش دیدہ و دل کے قریب
عالم تاب تشنہ
میں جب بھی گھر سے نکلتا ہوں رات کو تنہا
چراغ لے کے کوئی ساتھ ساتھ چلتا ہے
عالم تاب تشنہ
نفرت بھی اسی سے ہے پرستش بھی اسی کی
اس دل سا کوئی ہم نے تو کافر نہیں دیکھا
عالم تاب تشنہ
پہلے نصاب عقل ہوا ہم سے انتساب
پھر یوں ہوا کہ قتل بھی ہم کر دیے گئے
عالم تاب تشنہ