EN हिंदी
سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا | شیح شیری
safar mein rah ke aashob se na Dar jaana

غزل

سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا

عالم تاب تشنہ

;

سفر میں راہ کے آشوب سے نہ ڈر جانا
پڑے جو آگ کا دریا تو پار کر جانا

یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا
کسی مقام سے چڑیوں کا کوچ کر جانا

یہ انتقام ہے دشت بلا سے بادل کا
سمندروں پہ برستے ہوئے گزر جانا

تمہارا قرب بھی دوری کا استعارہ ہے
کہ جیسے چاند کا تالاب میں اتر جانا

طلوع مہر درخشاں کی اک علامت ہے
اٹھائے شمع یقیں اس کا دار پر جانا

تھے رزم گاہ محبت کے بھی عجب انداز
اسی نے وار کیا جس نے بے سپر جانا

ہر اک نفس پہ گزرتا ہے یہ گماں جیسے
چراغ لے کے ہواؤں سے جنگ پر جانا

ہم اپنے عشق کی اب اور کیا شہادت دیں
ہمیں ہمارے رقیبوں نے معتبر جانا

مرے یقیں کو بڑا بد گمان کر کے گیا
دعائے نیم شبی تیرا بے اثر جانا

ہر ایک شاخ کو پہنا گیا نمو کا لباس
سفیر موسم گل کا شجر شجر جانا

زمانہ بیت گیا ترک عشق کو تشنہؔ
مگر گیا نہ ہمارا ادھر ادھر جانا