EN हिंदी
عالم تاب تشنہ شیاری | شیح شیری

عالم تاب تشنہ شیر

14 شیر

شوریدگی کو ہیں سبھی آسودگی نصیب
وہ شہر میں ہے کیا جو بیابان میں نہیں

عالم تاب تشنہ




تمام عمر کی دیوانگی کے بعد کھلا
میں تیری ذات میں پنہاں تھا اور تو میں تھا

عالم تاب تشنہ




وصال یار کی خواہش میں اکثر
چراغ شام سے پہلے جلا ہوں

عالم تاب تشنہ




یہ کہنا ہار نہ مانی کبھی اندھیروں سے
بجھے چراغ تو دل کو جلا لیا کہنا

عالم تاب تشنہ




یہ کہنا تم سے بچھڑ کر بکھر گیا تشنہؔ
کہ جیسے ہاتھ سے گر جائے آئینہ کہنا

عالم تاب تشنہ