سوائے دربدری اس کو خاک ملتا ہے
جو آسمان سے اپنی زمیں بدلتا ہے
میں جب بھی گھر سے نکلتا ہوں رات کو تنہا
چراغ لے کے کوئی ساتھ ساتھ چلتا ہے
عجیب ہوتا ہے نظارگان شوق کا حال
ردائے ماہ پہن کر وہ جب نکلتا ہے
بروئے چشم ردائے حجاب تان لی جائے
وہ زیر سایۂ گل پیرہن بدلتا ہے
فریب قرب تو دیکھو کہ میرے پہلو میں
تمام رات کوئی کروٹیں بدلتا ہے
گزار دیتے ہیں آوارہ گرد آگ کے گرد
جو بے ٹھکانہ ہیں ان کا بھی کام چلتا ہے
ہمارے دم سے بھی ہے موسموں کی گلکاری
چراغ لالہ میں دل کا لہو بھی جلتا ہے
میں وہ شہید وفا ہوں کہ قتل کر کے مجھے
مرا غنیم تأسف سے ہاتھ ملتا ہے
ہمیں نصیب ہوا ایسی منزلوں کا سفر
قدم قدم پہ جہاں راستہ بدلتا ہے
ہوائے دامن رنگیں یہ کہہ گئی تشنہؔ
ہمارے سامنے کس کا چراغ جلتا ہے
غزل
سوائے دربدری اس کو خاک ملتا ہے
عالم تاب تشنہ