درد کی اک لہر بل کھاتی ہے یوں دل کے قریب
موج سرگشتہ اٹھے جس طرح ساحل کے قریب
ما سوائے کار آہ و اشک کیا ہے عشق میں
ہے سواد آب و آتش دیدہ و دل کے قریب
درد میں ڈوبی ہوئی آتی ہے آواز جرس
گریۂ گم گشتگی سنتا ہوں منزل کے قریب
آرزو نایافت کی ہے سلسلہ در سلسلہ
ہے نمود کرب لا حاصل بھی حاصل کے قریب
کچھ تو اے نظارگان عیش ساحل بولئے
کشتیاں کتنی ہوئیں غرقاب ساحل کے قریب
ہے ابھی واماندگی کو اک سفر درپیش اور
ہے ابھی افتاد منزل اور منزل کے قریب
رنگ حسرت کا تماشا دیکھنا تھا گر تمہیں
رقص آخر دیکھتے تم آ کے بسمل کے قریب
ہیں وہ سب تشنہؔ سر منزل امیر کارواں
جو ملے تھے کارواں سے آ کے منزل کے قریب
غزل
درد کی اک لہر بل کھاتی ہے یوں دل کے قریب
عالم تاب تشنہ