EN हिंदी
درد کی اک لہر بل کھاتی ہے یوں دل کے قریب | شیح شیری
dard ki ek lahr bal khati hai yun dil ke qarib

غزل

درد کی اک لہر بل کھاتی ہے یوں دل کے قریب

عالم تاب تشنہ

;

درد کی اک لہر بل کھاتی ہے یوں دل کے قریب
موج سرگشتہ اٹھے جس طرح ساحل کے قریب

ما سوائے کار آہ و اشک کیا ہے عشق میں
ہے سواد آب و آتش دیدہ و دل کے قریب

درد میں ڈوبی ہوئی آتی ہے آواز جرس
گریۂ گم گشتگی سنتا ہوں منزل کے قریب

آرزو نایافت کی ہے سلسلہ در سلسلہ
ہے نمود کرب لا حاصل بھی حاصل کے قریب

کچھ تو اے نظارگان عیش ساحل بولئے
کشتیاں کتنی ہوئیں غرقاب ساحل کے قریب

ہے ابھی واماندگی کو اک سفر درپیش اور
ہے ابھی افتاد منزل اور منزل کے قریب

رنگ حسرت کا تماشا دیکھنا تھا گر تمہیں
رقص آخر دیکھتے تم آ کے بسمل کے قریب

ہیں وہ سب تشنہؔ سر منزل امیر کارواں
جو ملے تھے کارواں سے آ کے منزل کے قریب