اب کسی خواب کی تعبیر نہیں چاہتا میں
کوئی صورت پس تصویر نہیں چاہتا میں
احمد اشفاق
عجب ٹھہراؤ پیدا ہو رہا ہے روز و شب میں
مری وحشت کوئی تازہ اذیت چاہتی ہے
احمد اشفاق
بہت بعید نہ تھا مسئلوں کا حل ہونا
انا کے پاؤں سے زنجیر ہم ہٹا نہ سکے
احمد اشفاق
بکتا رہتا سر بازار کئی قسطوں میں
شکر ہے میرے خدا نے مجھے شہرت نہیں دی
احمد اشفاق
چیخ اٹھتا ہے دفعتاً کردار
جب کوئی شخص بد گماں ہو جائے
احمد اشفاق
فاصلے یہ سمٹ نہیں سکتے
اب پرایوں میں کر شمار مجھے
احمد اشفاق
کسی کی شخصیت مجروح کر دی
زمانے بھر میں شہرت ہو رہی ہے
احمد اشفاق
لگتا ہے کہ اس دل میں کوئی قید ہے اشفاقؔ
رونے کی صدا آتی ہے یادوں کے کھنڈر سے
احمد اشفاق
میری کم گوئی پہ جو طنز کیا کرتے ہیں
میری کم گوئی کے اسباب سے ناواقف ہیں
احمد اشفاق