گئے دنوں کی رقابت کو وہ بھلا نہ سکے
شریک بزم تھے لیکن نظر ملا نہ سکے
عذاب ہجر کے لمحات ہم بھلا نہ سکے
دیار غیر میں اک پل سکون پا نہ سکے
بہت بعید نہ تھا مسئلوں کا حل ہونا
انا کے پاؤں سے زنجیر ہم ہٹا نہ سکے
تعلقات میں حد درجہ احتیاط رہی
قریب آ نہ سکے وہ مجھے بھلا نہ سکے
فریب کھا گئے تب جا کے انکشاف ہوا
قریب رہ کے بھی ہم ان کو آزما نہ سکے
غزل
گئے دنوں کی رقابت کو وہ بھلا نہ سکے
احمد اشفاق