EN हिंदी
گئے دنوں کی رقابت کو وہ بھلا نہ سکے | شیح شیری
gae dinon ki raqabat ko wo bhula na sake

غزل

گئے دنوں کی رقابت کو وہ بھلا نہ سکے

احمد اشفاق

;

گئے دنوں کی رقابت کو وہ بھلا نہ سکے
شریک بزم تھے لیکن نظر ملا نہ سکے

عذاب ہجر کے لمحات ہم بھلا نہ سکے
دیار غیر میں اک پل سکون پا نہ سکے

بہت بعید نہ تھا مسئلوں کا حل ہونا
انا کے پاؤں سے زنجیر ہم ہٹا نہ سکے

تعلقات میں حد درجہ احتیاط رہی
قریب آ نہ سکے وہ مجھے بھلا نہ سکے

فریب کھا گئے تب جا کے انکشاف ہوا
قریب رہ کے بھی ہم ان کو آزما نہ سکے