EN हिंदी
زمیں والوں کی بستی میں سکونت چاہتی ہے | شیح شیری
zamin walon ki basti mein sukunat chahti hai

غزل

زمیں والوں کی بستی میں سکونت چاہتی ہے

احمد اشفاق

;

زمیں والوں کی بستی میں سکونت چاہتی ہے
مری فطرت ستاروں سے اجازت چاہتی ہے

عجب ٹھہراؤ پیدا ہو رہا ہے روز و شب میں
مری وحشت کوئی تازہ اذیت چاہتی ہے

میں تجھ کو لکھتے لکھتے تھک چکا ہوں میری دنیا
مری تحریر اب تھوڑی سی فرصت چاہتی ہے

ادھر منہ زور موجیں دندناتی پھر رہی ہیں
مگر اک ناؤ دریا سے بغاوت چاہتی ہے