اپنے ماحول سے کچھ یوں بھی تو گھبرائے نہ تھے
سنگ لپٹے ہوئے پھولوں میں نظر آئے نہ تھے
افضل منہاس
اپنی بلندیوں سے گروں بھی تو کس طرح
پھیلی ہوئی فضاؤں میں بکھرا ہوا ہوں میں
افضل منہاس
بکھرتے جسم لے کر تند طوفانوں میں بیٹھے ہیں
کوئی ذرے کی صورت ہے کوئی ٹیلے کی صورت ہے
افضل منہاس
بکھرے ہوئے ہیں دل میں مری خواہشوں کے رنگ
اب میں بھی اک سجا ہوا بازار ہو گیا
افضل منہاس
چاند میں کیسے نظر آئے تری صورت مجھے
آندھیوں سے آسماں کا رنگ میلا ہو گیا
افضل منہاس
درد زنجیر کی صورت ہے دلوں میں موجود
اس سے پہلے تو کبھی اس کے یہ پیرائے نہ تھے
افضل منہاس
دل کی مسجد میں کبھی پڑھ لے تہجد کی نماز
پھر سحر کے وقت ہونٹوں پر دعا بھی آئے گی
افضل منہاس
ایک ہی فن کار کے شہکار ہیں دنیا کے لوگ
کوئی برتر کس لیے ہے کوئی کم تر کس لیے
افضل منہاس
ہوا کے پھول مہکنے لگے مجھے پا کر
میں پہلی بار ہنسا زخم کو چھپائے ہوئے
افضل منہاس