میں اپنے دل میں نئی خواہشیں سجائے ہوئے
کھڑا ہوا ہوں ہوا میں قدم جمائے ہوئے
نئے جہاں کی تمنا میں گھر سے نکلا ہوں
ہتھیلیوں پہ نئی مشعلیں جلائے ہوئے
ہوا کے پھول مہکنے لگے مجھے پا کر
میں پہلی بار ہنسا زخم کو چھپائے ہوئے
نہ آندھیاں ہیں نہ طوفاں نہ خون کے سیلاب
ہیں خوشبوؤں میں مناظر سبھی نہائے ہوئے
پگھل گئی ہیں اچانک غموں کی زنجیریں
گرے ہیں دھوپ کے نیزے بدن چرائے ہوئے
دکھا رہی ہے نئی زندگی کے نقش قدم
سکوں کی نیند گلے سے مجھے لگائے ہوئے
چٹخنے والی زمیں دور رہ گئی افضلؔ
ہیں سارے کھیت ستاروں کے لہلہائے ہوئے
غزل
میں اپنے دل میں نئی خواہشیں سجائے ہوئے
افضل منہاس