گم صم ہوا کے پیڑ سے لپٹا ہوا ہوں میں
کتبے پہ اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ہوں میں
آنکھوں میں وسوسوں کی نئی نیند بس گئی
سو جاؤں ایک عمر سے جاگا ہوا ہوں میں
یا رب رگوں میں خون کی حدت نہیں رہی
یا کرب کی صلیب پہ لٹکا ہوا ہوں میں
اپنی بلندیوں سے گروں بھی تو کس طرح
پھیلی ہوئی فضاؤں میں بکھرا ہوا ہوں میں
پتے گرے تو اور بھی آسیب بن گئے
وہ شور ہے کہ خود سے بھی سہما ہوا ہوں میں
شاخوں سے ٹوٹنے کی صدا دور تک گئی
محسوس ہو رہا ہے کہ ٹوٹا ہوا ہوں میں
وہ آگ ہے کہ ساری جڑیں جل کے رہ گئیں
وہ زہر ہے کہ پھول سے کانٹا ہوا ہوں میں
کٹتے ہوئے تنے کا بھی نوچا گیا لباس
گر کر زمیں پہ اور بھی رسوا ہوا ہوں میں
افضلؔ میں سوچتا ہوں یہ کیا ہو گیا مجھے
مٹی ملی تو اور بھی چٹخا ہوا ہوں میں
غزل
گم صم ہوا کے پیڑ سے لپٹا ہوا ہوں میں
افضل منہاس