گر پڑا تو آخری زینے کو چھو کر کس لیے
آ گیا پھر آسمانوں سے زمیں پر کس لیے
آئینہ خانوں میں چھپ کر رہنے والے اور ہیں
تم نے ہاتھوں میں اٹھا رکھے ہیں پتھر کس لیے
میں نے اپنی ہر مسرت دوسروں کو بخش دی
پھر یہ ہنگامہ بپا ہے گھر سے باہر کس لیے
عکس پڑتے ہی مصور کا قلم تھرا گیا
نقش اک آب رواں پر ہے اجاگر کس لیے
ایک ہی فن کار کے شہکار ہیں دنیا کے لوگ
کوئی برتر کس لیے ہے کوئی کم تر کس لیے
خوشبوؤں کو موسموں کا زہر پینا ہے ابھی
اپنی سانسیں کر رہے ہو یوں معطر کس لیے
اتنی اہمیت کے قابل تو نہ تھا مٹی کا گھر
ایک نقطے میں سمٹ آیا سمندر کس لیے
پوچھتا ہوں سب سے افضل کوئی بتلاتا نہیں
بے بسی کی موت مرتے ہیں سخن ور کس لیے
غزل
گر پڑا تو آخری زینے کو چھو کر کس لیے
افضل منہاس