EN हिंदी
کانچ کی زنجیر ٹوٹی تو صدا بھی آئے گی | شیح شیری
kanch ki zanjir TuTi to sada bhi aaegi

غزل

کانچ کی زنجیر ٹوٹی تو صدا بھی آئے گی

افضل منہاس

;

کانچ کی زنجیر ٹوٹی تو صدا بھی آئے گی
اور بھرے بازار میں تجھ کو حیا بھی آئے گی

عطر میں کپڑے بسا کر مطمئن ہے کس لئے
با وفا ہو جا کہ یوں بوئے وفا بھی آئے گی

دیکھ لے ساحل سے جی بھر کے مچلتی لہر کو
اس طرف کچھ دیر میں موج فنا بھی آئے گی

دودھیا نازک گلے میں باندھ لے تعویذ کو
آج سنتا ہوں کہ بستی میں بلا بھی آئے گی

رات کے پچھلے پہر دستک کا رکھ لینا خیال
پتے کھڑکیں گے ذرا آواز پا بھی آئے گی

اجلی اجلی خواہشوں پر نیند کی چادر نہ ڈال
یاد کے روزن سے کچھ تازہ ہوا بھی آئے گی

جا چکے سارے بگولے فکر کی کیا بات ہے
کھیت کو سیراب کرنے اب گھٹا بھی آئے گی

دور کے لوگوں کو نظروں میں بسا کر دیکھ لے
قرب مل جائے گا آنکھوں میں جلا بھی آئے گی

شہر نا پرساں کے منظر نقش کر لے ذہن میں
آنکھ رستے میں کوئی منظر گرا بھی آئے گی

دل کی مسجد میں کبھی پڑھ لے تہجد کی نماز
پھر سحر کے وقت ہونٹوں پر دعا بھی آئے گی

زندگی کا یہ مرض افضلؔ چلا ہی جائے گا
تیرے ہاتھوں میں کبھی خاک شفا بھی آئے گی