EN हिंदी
اس پیڑ کو چھوا تو ثمر دار ہو گیا | شیح شیری
us peD ko chhua to samar-dar ho gaya

غزل

اس پیڑ کو چھوا تو ثمر دار ہو گیا

افضل منہاس

;

اس پیڑ کو چھوا تو ثمر دار ہو گیا
پھر جانے کیا ہوا وہ شرر بار ہو گیا

موسم کی بھول تھی کہ مری دسترس کی بات
پتھر سے ایک پھول نمودار ہو گیا

بکھرے ہوئے ہیں دل میں مری خواہشوں کے رنگ
اب میں بھی اک سجا ہوا بازار ہو گیا

اک بار میں بھی خواب میں بیٹھا تھا تخت پر
آنکھیں کھلیں تو اور بھی نادار ہو گیا

پہلے تو سر کو پھوڑ لیا اس کو دیکھ کر
پھر میں بھی ایک روزن دیوار ہو گیا

ویسے تمام عمر مری نیند میں کٹی
گھر میں نقب لگی تو میں بیدار ہو گیا

یارو یہ زندگی کا مکاں بھی عجیب ہے
تعمیر ہو گیا کبھی مسمار ہو گیا

لفظوں کے پھول آنچ سی دینے لگے مجھے
بے باک آج شعلۂ گفتار ہو گیا

دشمن نظر پڑا تو مٹیں رنجشیں تمام
لڑنے کو سارا شہر ہی تیار ہو گیا

مجرم بری ہوا تو کئی قتل ہو گئے
بستی کا اک غریب گرفتار ہو گیا

افضلؔ کچھ اس طرح کی اچانک ہوا چلی
سانسیں بحال رکھنا بھی دشوار ہو گیا