اپنے ماحول سے کچھ یوں بھی تو گھبرائے نہ تھے
سنگ لپٹے ہوئے پھولوں میں نظر آئے نہ تھے
درد زنجیر کی صورت ہے دلوں میں موجود
اس سے پہلے تو کبھی اس کے یہ پیرائے نہ تھے
چند بکھرے ہوئے ریزوں کے سوا کچھ بھی نہیں
سوچتے ہیں کہ چٹانوں سے بھی ٹکرائے نہ تھے
تو نے خود روز ازل ہم سے پناہیں مانگیں
زندگی ہم تجھے دامن میں چھپا لائے نہ تھے
ہم کہ ہر دور کی تزئیں میں رہے ہیں شامل
اب بھی پچھتائے نہیں پہلے بھی پچھتائے نہ تھے
غزل
اپنے ماحول سے کچھ یوں بھی تو گھبرائے نہ تھے
افضل منہاس