EN हिंदी
اپنے ماحول سے کچھ یوں بھی تو گھبرائے نہ تھے | شیح شیری
apne mahaul se kuchh yun bhi to ghabrae na the

غزل

اپنے ماحول سے کچھ یوں بھی تو گھبرائے نہ تھے

افضل منہاس

;

اپنے ماحول سے کچھ یوں بھی تو گھبرائے نہ تھے
سنگ لپٹے ہوئے پھولوں میں نظر آئے نہ تھے

درد زنجیر کی صورت ہے دلوں میں موجود
اس سے پہلے تو کبھی اس کے یہ پیرائے نہ تھے

چند بکھرے ہوئے ریزوں کے سوا کچھ بھی نہیں
سوچتے ہیں کہ چٹانوں سے بھی ٹکرائے نہ تھے

تو نے خود روز ازل ہم سے پناہیں مانگیں
زندگی ہم تجھے دامن میں چھپا لائے نہ تھے

ہم کہ ہر دور کی تزئیں میں رہے ہیں شامل
اب بھی پچھتائے نہیں پہلے بھی پچھتائے نہ تھے