عجیب طرفہ تماشا ہے میرے عہد کے لوگ
سوال کرنے سے پہلے جواب مانگتے ہیں
عباس رضوی
بہت عزیز تھی یہ زندگی مگر ہم لوگ
کبھی کبھی تو کسی آرزو میں مر بھی گئے
عباس رضوی
ایک ناتواں رشتہ اس سے اب بھی باقی ہے
جس طرح دعاؤں کا اور اثر کا رشتہ ہے
عباس رضوی
خوف ایسا ہے کہ دنیا کے ستائے ہوئے لوگ
کبھی منبر کبھی محراب سے ڈر جاتے ہیں
عباس رضوی
کیا کروں خلعت و دستار کی خواہش کہ مجھے
زیست کرنے کا سلیقہ بھی زیاں سے آیا
عباس رضوی
میں جو چپ تھا ہمہ تن گوش تھی بستی ساری
اب مرے منہ میں زباں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
عباس رضوی
طلب کریں تو یہ آنکھیں بھی ان کو دے دوں میں
مگر یہ لوگ ان آنکھوں کے خواب مانگتے ہیں
عباس رضوی
تمام عمر کی بے تابیوں کا حاصل تھا
وہ ایک لمحہ جو صدیوں کے پیش و پس میں رہا
عباس رضوی
وحشت کے اس نگر میں وہ قوس قزح سے لوگ
جانے کہاں سے آئے تھے جانے کدھر گئے
عباس رضوی