EN हिंदी
جب کوئی تیر حوادث کی کماں سے آیا | شیح شیری
jab koi tir hawadis ki kaman se aaya

غزل

جب کوئی تیر حوادث کی کماں سے آیا

عباس رضوی

;

جب کوئی تیر حوادث کی کماں سے آیا
نغمہ اک اور مرے مطرب جاں سے آیا

ایک نظارے نے میرے لیے آنکھیں بھیجیں
دل کسی کارگہہ شیشہ گراں سے آیا

جب بھی اس دل نے ترے قرب کی دولت چاہی
ایک سایہ سا نکل کر رگ جاں سے آیا

میں نہ ڈرتا تھا عناصر کی ستم کوشی سے
خوف آیا تو بس اک عمر رواں سے آیا

کیا کروں خلعت و دستار کی خواہش کہ مجھے
زیست کرنے کا سلیقہ بھی زیاں سے آیا

میں تو اک خواب کو آنکھوں میں لیے پھرتا تھا
یہ ستارہ مرے پہلو میں کہاں سے آیا