میں اس سے دور رہا اس کی دسترس میں رہا
وہ ایک شعلے کی صورت مرے نفس میں رہا
نظر اسیر اسی چشم مے فشاں کی رہی
مرا بدن بھی مری روح کے قفس میں رہا
چمن سے ٹوٹ گیا برگ زرد کا رشتہ
نہ آب و گل میں سمایا نہ خار و خس میں رہا
تمام عمر کی بے تابیوں کا حاصل تھا
وہ ایک لمحہ جو صدیوں کے پیش و پس میں رہا
وہ ایک شاعر آشفتہ سر کہ مجھ میں تھا
ہوا کا ساتھ نہ دے کر ہوا کے بس میں رہا
کسی خیال کے نشے میں دن گزرتے رہے
میں اپنی عمر کے انیسویں برس میں رہا
غزل
میں اس سے دور رہا اس کی دسترس میں رہا
عباس رضوی