جس کو ہم سمجھتے تھے عمر بھر کا رشتہ ہے
اب وہ رابطہ جیسے رہ گزر کا رشتہ ہے
صبح تک یہ موجیں بھی تھک کے سو ہی جائیں گی
چاند کا سمندر ہے رات بھر کا رشتہ ہے
یہ جو اتنے سارے دل ساتھ ہی دھڑکتے ہیں
کچھ قلم کا ناطہ ہے کچھ ہنر کا رشتہ ہے
تیز ہیں تو کیا غم ہے تند ہیں تو شکوہ کیا
ان ہواؤں سے اپنا بال و پر کا رشتہ ہے
اس حسیں تصور کا میری سرخ آنکھوں سے
آب و گل کا ناطہ ہے بام و در کا رشتہ ہے
ایک ناتواں رشتہ اس سے اب بھی باقی ہے
جس طرح دعاؤں کا اور اثر کا رشتہ ہے
غزل
جس کو ہم سمجھتے تھے عمر بھر کا رشتہ ہے
عباس رضوی