ہر طرف شور فغاں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
قافلہ ہے کہ رواں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
اک صدا پوچھتی رہتی ہے کوئی زندہ ہے
میں کہے جاتا ہوں ہاں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
میں جو چپ تھا ہمہ تن گوش تھی بستی ساری
اب مرے منہ میں زباں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
دیکھنے والے تو اس شہر میں یوں بھی کم تھے
اب سماعت بھی گراں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
ایک ہنگامہ کہ اس دل میں بپا رہتا تھا
اب کراں تا بہ کراں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
کیا ستم ہے کہ مرے شہر میں میری آواز
جیسے آواز سگاں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
غزل
ہر طرف شور فغاں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
عباس رضوی