کئی چاند تھے سر آسماں کہ چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا نہ تمہاری زلف سیاہ تھی
احمد مشتاق
نہ مزاج ناز جلوہ کبھی پا سکیں نگاہیں
کہ الجھ کے رہ گئی ہیں تری زلف خم بہ خم میں
اختر اورینوی
مرے ہاتھ سلجھا ہی لیں گے کسی دن
ابھی زلف ہستی میں خم ہے تو کیا غم
علی جواد زیدی
کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جھوم کے آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی
آرزو لکھنوی
پوچھا جو ان سے چاند نکلتا ہے کس طرح
زلفوں کو رخ پہ ڈال کے جھٹکا دیا کہ یوں
آرزو لکھنوی
زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا
رخ پر تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا
the priest has seen my piety, he hasn't seen your grace
he has not seen your tresses strewn across your face
اصغر گونڈوی
بہت مشکل ہے دنیا کا سنورنا
تری زلفوں کا پیچ و خم نہیں ہے
اسرار الحق مجاز