EN हिंदी
زلف شیاری | شیح شیری

زلف

58 شیر

اے جنوں ہاتھ جو وہ زلف نہ آئی ہوتی
آہ نے عرش کی زنجیر ہلائی ہوتی

گویا فقیر محمد




غم زمانہ تری ظلمتیں ہی کیا کم تھیں
کہ بڑھ چلے ہیں اب ان گیسوؤں کے بھی سائے

حفیظ ہوشیارپوری




آپ کی نازک کمر پر بوجھ پڑتا ہے بہت
بڑھ چلے ہیں حد سے گیسو کچھ انہیں کم کیجئے

حیدر علی آتش




جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے

حیدر علی آتش




ٹوٹیں وہ سر جس میں تیری زلف کا سودا نہیں
پھوٹیں وہ آنکھیں کہ جن کو دید کا لپکا نہیں

حقیر




زلف کلمونہی کو پیارے اتنا بھی سر مت چڑھا
بے محابا منہ پہ تیرے پاؤں کرتی ہے دراز

حسرتؔ عظیم آبادی




زلفوں میں کیا قید نہ ابرو سے کیا قتل
تو نے تو کوئی بات نہ مانی مرے دل کی

امام بخش ناسخ