EN हिंदी
زلف شیاری | شیح شیری

زلف

58 شیر

اثر زلف کا برملا ہو گیا
بلاؤں سے مل کر بلا ہو گیا

مرزارضا برق ؔ




ہاتھ ٹوٹیں میں نے گر چھیڑی ہوں زلفیں آپ کی
آپ کے سر کی قسم باد صبا تھی میں نہ تھا

مومن خاں مومن




الجھا ہے پانوں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

مومن خاں مومن




اک مرا سر کہ قدم بوسی کی حسرت اس کو
اک تری زلف کہ قدموں سے لگی رہتی ہے

مبارک عظیم آبادی




کچھ بکھری ہوئی یادوں کے قصے بھی بہت تھے
کچھ اس نے بھی بالوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا

منور رانا




سرک کر آ گئیں زلفیں جو ان مخمور آنکھوں تک
میں یہ سمجھا کہ مے خانے پہ بدلی چھائی جاتی ہے

نشور واحدی




کبھی کھولے تو کبھی زلف کو بکھرائے ہے
زندگی شام ہے اور شام ڈھلی جائے ہے

پریم واربرٹنی